Featured Post

Dino Park Murree, A house of Dinosaurs, Pakistan

Image
                 Dino Park Murree: A Journey Back in Time to the Mesozoic Era Imagine stepping into a world where colossal dinosaurs once roamed the Earth, where you can witness these ancient giants up close and personal. Welcome to Dino Park Murree, a thrilling and educational amusement park that takes you on an exciting journey back in time to the Mesozoic Era. Located in the picturesque hill station of Murree, Pakistan, Dino Park is a one-of-a-kind attraction that captivates visitors of all ages with its life-size dinosaur replicas, educational exhibits, and prehistoric adventures. In this blog post, we delve into the fascinating world of Dino Park Murree and the wonders it has to offer. DINO PARK The Mesozoic Adventure: Dino Park Murree transports visitors to a time long gone—the Mesozoic Era—when dinosaurs ruled the Earth. As you enter the park, you'll be greeted by an awe-inspiring sight: life-size and incredibly realistic dinosaur replicas scattered throughout the land

KALA CHITTA MOUNTAIN-ATTOCK-PAKISTAN

 Kala Chitta

Jhallar Railway Station

#Seven_Sisters_Tunnels_Attock

KALA CHITTA MOUNTAIN-ATTOCK-PAKISTAN
THE STRANGE KALA CHITTA MOUNTAIN-ATTOCK-PAKISTAN


صوبہ پنجاب کے آخری ضلع اٹک کی جغرافیائی حدود میں واقع کالا چٹا پہاڑی سلسلے کی سات سرنگوں کی تعمیر ایک عجوبہ سے کم نہیں  یہ ریلوے انجینئروں کی فنی مہارت کا اعلیٰ نمونہ ہیں مذکورہ سرنگوں کی شہرت کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ Guinness Book of the World Record کا حصہ بن چکی ہیں اور سات کے عددی شمار کی وجہ سے انہیں Seven Sisters Tunnels کہا جاتا ہے 

یہ جڑواں سرنگیں ریلوے کی شاندار عظمت کی عکاس ہونے کے علاوہ ملک و قوم کا تاریخی ورثہ بھی ہیں

ریلوے اسٹیشن اٹک سے بذریعہ ٹرین برانچ لائن جنڈ کیلیئے سفر کیا جائے تو تقریباً سات کلو میٹر کے بعد”کنجور ریلوے اسٹیشن “ آتا ہے اور اس سے اگلا”جھلار ریلوے اسٹیشن“ ہے ان دونوں کا درمیانی فاصلہ دس کلو میٹر ہے ان اسٹیشنوں کے مابین”کالا چٹا“ نامی پہاڑی سلسلہ ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں مذکورہ ریلوے سرنگیں انہی پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں یہ سات سرنگیں 5 کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں سرنگوں کی مجموعی لمبائی 9046 فٹ یا تقریباً 3 کلو میٹر ہے دنیا میں کہیں بھی اتنے کم فاصلے پر ریلوے کی مسلسل سات سرنگوں کا وجود نہیں ملتا اور شاید یہی وجہ مذکورہ سرنگوں کی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج کا باعث بنی یہ ٹنل بالترتیب 892 فٹ،1180 فٹ، 855 فٹ ،1776فٹ،1131فٹ،1616فٹ لمبے ہیں جبکہ ساتویں سرنگ کی لمبائی1596 فٹ ہے ان کی تعمیر کا آغاز1896ءمیں ہوا اور یہ 1898ءمیں مکمل ہوئیں

 

دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ تیسری اور ساتویں سرنگ میں پانی کے قدرتی چشمے مسلسل رواں ہیں اور پانی کنارے کے ساتھ بہتا ہوا باہر کی جانب آتا ہے پھر ریل کی پٹڑی کے ساتھ بنی ہوئی نالی میں داخل ہو کر نیچے ڈھلوان کی جانب جا نکلتا ہے جہاں چرواہے اور مویشی اپنی پیاس بجھاتے نظر آتے ہیں

یوں تو عام سرنگیں ایک خط مستقیم میں ہیں تاہم چوتھی سرنگ سول انجینئرنگ کا کمال لگتی ہے یہ واحد سرنگ ہے جو سیدھی ہونے کے بجائے گھومتی ہوئی بنائی گئی ہے 1897ء میں پہاڑ کے دونوں جانب سے کھدائی کا آغاز کیا گیا اور پھر مہارت سے دونوں سرے بیچ میں آکر ایک دوسرے سے جوڑ دیئے گئے اس بل کھاتی سرنگ میں اگر پیدل چلیں تو اگلا دھانہ نظر نہ آنے کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے آگے بڑھنے کی بجائے ایک ہی جگہ کھڑے ہوا میں پاﺅں چلا رہے ہیں جب ریلوے کے مزدور سرنگ کے اندر مرمت کا کام انجام دیتے ہیں تو وہ سورج کی روشنی کو بڑے بڑے آئینوں کے ذریعے منعکس کرکے سرنگ کے اندر پھینکتے ہیں جس سے اندرونی ماحول روشن ہو جاتا ہے


ریل کی پٹڑی کے بیچ میں کھڑے ہو کر اگر شمال کی جانب نظر دوڑائیں تو تین سرنگیں ایک سیدھ میں نظر آتی ہیں اور ان کے روشن دھانے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دیو ہیکل آنکھ پلک جھپکے بغیر مسلسل دیکھے جارہی ہے ایسے میں ٹرین کا نظارہ بڑا دل نشین ہوتا ہے وہ کالی پتلی میں داخل ہوتے ہی کہیں گم ہو جاتی ہے اور پھر دوسرے دھانے پر دوبارہ نظر آنے لگتی ہے یہ ایک جادوئی منظر محسوس ہوتا ہے

اس علاقے میں نایاب نسل کی جنگلی تتلیوں کی بھی بہتات ہے ان کے سفیدی مائل پروں پر کالے دھبے شاید کالے چٹے پہاڑ کی نمائندگی کرتے ہیں ہزاروں کی تعداد یہ تتلیاں قطار اندر قطار ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اڑتی ہوئی جب سرنگ میں سے گزرتی ہیں تو ان کے اڑان کی شانِ بے نیازی اس بات کی غماز ہوتی ہے جیسے یہ سرنگیں ان کی گزر گاہ کے طور پر تعمیر کی گئی ہیں فضا میں اڑتی ہوئی یہ تتلیاں ایسی ہوائی ٹرین کا نظارہ پیش کرتی ہیں جو سبک خرام ہونے کے باوجود کسی صوتی آلودگی کا باعث نہیں بنتی اس طرح جنگل کی دنیا کا فطرتی حسن ایک ابدی سکون کی کیفیت سے ہمیشہ سرشار رہتا ہے

پھلاہی اور جنگلی زیتون کے ان جنگلات میں جنگلی حیات بھی خوب پھل پھول رہی ہے ہرن،اڑیال، گیدڑ، بھیڑیئے،لومڑ،سور وغیرہ کثیر تعداد میں موجود ہیں چار سو تیتر،چکور اور فاختاﺅں کی صدائیں گونجتی ہیں۔سائبریا سے آنے والے مہاجر پرندوں میں Wood Peigon ،ہریل طوطے،تلیر،مرغابی،کونجیں اور بگلوں کی قطاریں نظر آتی ہیں

پہلی اور دوسری سرنگ کے درمیان بچھی ہوئی ریل کی پٹڑی پر شکردرہ پل تعمیر کیا گیا ہے جس کے نیچے سے اطراف کے پہاڑوں سے ندی نالوں کی صورت میں بہہ کر آنے والا پانی گزرتا ہے شکردرہ نامی گاﺅں کے قریب ندی کی گزرگاہ پر بندھ باندھ کر پانی کو روک لیا گیا اس طرح ڈیم کے وجود میں آنے سے قرب و جوار کی زمینوں کو سیراب کیا جانے لگا ڈیم کی تعمیر سے اب پانی کی سطح ریلوے پل کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے


شکردرہ پل سے بھی پہلے نندنا براج آتا ہے جو کہ کنجور کے ریلوے اسٹیشن سے محض آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے شکردرہ پل کی طرز تعمیر کے برعکس یہاں ستونوں کی تعمیر میں تراشے ہوئے پتھروں کے بجائے اینٹوں کا استعمال کیا گیا ہے سطح زمین سے گزرتی بلندی لگ بھگ 100 فٹ کے قریب اگر نیچے کھڑے ہو کر پل سے گزرتی ہوئی ٹرین کا نظارہ کیا جائے تو دیو ہیکل ڈبے کھلونوں کی مانند ایک دوسرے کے پیچھے لپکتے نظر آتے ہیں جبکہ چلتی ٹرین کی کھڑکی سے نیچے جھانکنے والے مسافر اکثر اپنی آنکھیں بند کرکے سر کو کچھوے کی مانند اندر کھینچ لیتے ہیں کہ مبادہ کششِ ثقل انہیں پل سے نیچے نہ دھکیل دے

پل کے نیچے سے گزرنے والی صاف و شفاف پانی کی ندی ’’نندنا‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے ندی پل کے نیچے سے ایک چکر کاٹ کر گزرتی ہے اور بہاؤ کی تیزی کی وجہ سے پانی کی دلگراز تانیں واضح طور پر سُر بکھیرتی سنائی دیتی ہیں

ریلوے کی سات سرنگوں کی خوبصورت مالا کے دونوں سروں کو کنجور اور جھلار کے قدیم اسٹیشنوں نے اپنے گرد باندھ رکھا ہے مشرقی سرے پر کنجور کا ریلوے اسٹیشن وکٹورین عہد کی یاد دلاتا ہے لق و دق میدان میں یہ پلیٹ فارم بازو پھیلائے آنے جانے والے مسافروں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے کنجور کے نام کی وجہ تسمیہ چونے کی نرم قسم کا پتھر ہے جو اس علاقے میں وافر مقدار میں موجود ہے لیکن حیرت ہے کہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر میں کنجور کے پتھر کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ اس کی مناسبت سے محض اسٹیشن کا نام کنجور رکھنے پر ہی اکتفا کیا گیا شاید یہ بھی کچھ اس طرح کا اتفاق ہے جیسے اسکاٹ لینڈ سے منسوب اسکاچ وسکی کا وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہے

سرنگوں کے مغربی اختتامی سرے پر جھلار کا خوبصورت اسٹیشن واقع ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور جھلار نامی گاﺅں نے یہ نام اسٹیشن کو ودیعت کیا ہے تیس چالیس گھروں پر مشتمل یہ گاﺅں اب بے آباد ہو چکا ہے کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر گئے ہیں تاہم اکا دکا ساربان جنگل میں سے چوری چھپے لکڑیاں کاٹتے نظر آجاتے ہیں اردو کے صاحب طرز ادیب امان اللہ خان نے اپنے ایک افسانے میں جھلار اسٹیشن کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے جھلار گاؤں مٹھیال تحصیل جنڈ کی ملکیت ہے


”سرنگوں کے اس پار جھلار کا ریلوے اسٹیشن اپنے ازل پر بیٹھا اونگھ رہا تھا ’سن1880‘ اپنے وجود کی تاریخ کی تختی عمارت نے اپنے گلے میں لٹکا رکھی تھی اس کی عمر کے گزرے سال آس پاس بکھرے پڑے تھے سامنے پہاڑی ٹیلے پر رکھی پانی کی ٹینکی رنگوں کے سینکڑوں لیپ اوڑھ کر سوئی ہوئی تھی ندی کنارے قطار میں بیٹھے ریلوے کے کوارٹر ایک ایک کرکے اپنی گزری عمر کی کنکریاں ندی میں پھینک رہے تھے بڑے بڑے اسٹیل گارڈ والا ریل کا پل سات سرنگیں، ہر ایک نے اپنی عمر کا حساب اپنے ماتھے پر لکھ رکھا تھا“۔

”اس برانچ لائن پر شمال اور جنوب سے آنے والی گاڑیاں اس پہاڑی ریلوے اسٹیشن پر چند لمحوں کےلیے رکتیں اور سیٹیاں بجاتی ہوئی سرنگوں کے اس پار چلی جاتیں انجن کا دھواں دیر تک ٹنل سے رستا رہتا“۔

جھلار کی راتوں کا طلسم سر چڑھ کر بولتا ہے فضا مکمل طور پر آلودگی سے پاک ہے دور دور تک ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشائیں واضح دکھائی دیتی ہیں چاندنی راتوں کے علاوہ بھی ستاروں کی جھلملاہٹ سے پگڈنڈیاں اور وادیاں دمکتی نظر آتی ہیں آسمان کی وسعتوں میں نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے جیسے رات کے چوکیدار لالٹین اٹھائے گشت کررہے ہیں اور ایسے میں اُلوﺅں کی آوازیں بھی”جاگتے رہنا“ کا تاثر پیش کرتی ہیں


کالے چٹے پہاڑ کی یہ عجوبہ سرنگیں سات جڑواں بہنوں کی مانند ہیں جنہوں نے وادی کے ابدی حسن کو چار چاند لگا رکھے ہیں یہاں جنگلی حیات ہمیشہ اپنے جوبن پر رہی ہے پہاڑوں کے بیچوں بیچ ندی بہتی ہے

 پہاڑ اور جنگل خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں ڈیم کا پانی واٹر سپورٹس کے لیے دستیاب ہے اگر یہاں سیاحوں کو مدعو کیا جائے تو یقینا لوگ اس چھپی ہوئی سیرگاہ کا سراغ پا کر خوشی سے جھوم اُٹھیں گے یہاں ہوٹل اور ریستوران کھولے جائیں طلباءکو ترغیب دے کر سالانہ واک کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں اس طرح اپنے ملک کے تاریخی ورثے سے آگاہی حاصل ہونے میں مدد ملے گی امن و آشتی کا ماحول میسر آنے سے سیاحت بھی فروغ پائے گی اور محکمہ ریلوے کی آمدنی میں بھی معقول اضافہ ہوگا.





Comments

  1. Well done 👏sir, keep going on

    ReplyDelete
  2. Much valuable information about beautiful places of pakistan 🇵🇰
    Great job👍👍👍👍👍👍

    ReplyDelete
  3. interesting , informative blog. جزاک اللّٰه

    ReplyDelete
  4. Best one..i will surely recommend to visitors

    ReplyDelete
  5. Excellent and very interesting
    information about our beloved nation. Very nice blog sir Abdul Mateen Malik keep it up.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

NARAN AND KAGHAN, NORTHERN AREAS OF PAKISTAN

NEELUM VALLEY, AZAD KASHMIR, PAKISTAN

Dino Park Murree, A house of Dinosaurs, Pakistan